لوگ کیا کہیں گے؟

News101 > Uncategorized > لوگ کیا کہیں گے؟
لوگ کیا کہیں گے؟

لوگ کیا کہیں گے؟

میری زندگی مگر مداخلت لوگوں کی؟

اگر،مگر،ایسے،ویسے یہ سب کیا؟

از قلم: رمشہ شہزادی

زندگی مختلف اعمال کا مجموعہ ہے۔ دکھ سکھ، مال کی تنگی و فراوانی،علم و عقل ، شعور اور حکمت سے بھرپور۔ ہم مشرقی لوگ خاص کر ہندوستانی اورپاکستانی اپنی رسومات اور ثقافت کے باعث بہت حد تک مماثلت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہت سارے سماجی مسائل اور رسم و رواج بھی مشابہت رکھتے ہیں۔ ہم رشتوں ناطوں کو جوڑ کر رکھنے کے حامی ہوتے ہیں۔ اسکے لیے چاہے دونوں اطراف میں سے کسی ایک طرف سے کوشش شدید ہو اور آپ ِپس کر رہ جائیں تعلقات نبھانے کی سعی کرتے ہوۓ۔

مگر ایک موڑ آتا ہے سب کوششیں بےکار جاتی ہیں سب امیدیں دم توڑ دیتی ہیں اور جن رشتوں کو بچانے کے لیے ہم سر دھڑ کی بازی لگانے کو بھی تیار تھے آج وہ تمام رستے نفرتوں کی گھٹھڑی سر پے اٹھاۓ ایسے الگ ہوۓ جیسے کبھی کوئ تعلق واسطہ تھا ہی نہیں۔ پھر خیال آتا ہے متوازن فیصلے ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ جو سب آج ہوا اسے بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ تمام دوستیوں اور رشتوں کو بہت پہلے فاصلہ اختیار کر لینا چاہیے تھا تا کہ بھرم قائم رہتا محبتیں باقی رہتیں۔ اور حالات شائد اس قدر قابل ترس نہ ہوتے۔ مگر ہم سب اس خوف سے زبردستی رشتے نبھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ:

لوگ کیا کہیں گے؟

تو سوال یہ ہے کہ ہمارے اعمال اصل میں ہیں کسکے لیے؟ ہم خدا کی رضا کی خاطر، اپنے ذہنی سکون کی خاطراور اپنی ذات سے جڑے لوگوں کی خاطر کچھ کرنا چاہتے ہیں یا پھر اپنی بھلےّ بھلےّ کروانا چاہتے ہیں۔ اگر تو آپکی زندگی میں یہ خوف موجود ہے کہ لوگ کیا کہیں گے تو جان لیجیے بدقسمتی سے آپ ایک بزدل اور ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔ اسی لیے متوسط سوچیں اور رسومات آپکو تنگ کرتی ہیں۔

کل مجھ سے ایک عزیزہ نے سوال پوچھا کہ: “کیا لوگوں کا خوف آپکی زندگی میں ہے؟ کیا آپ لوگوں کے ڈر سے فیصلے لیتے ہوۓ ہچکچاتی ہیں؟ یا پھر یہ کہ لوگوں کی وجہ سے آپ وہ فیصلے لینے کی جسارت کر ہی نہیں پاتیں جو اصل میں آپ لینا چاہتی تھیں”؟

موضوع ایسا تھا کہ اس پر میں گھنٹوں دلائل دے سکتی تھی، یا پھر تب تک کہ سامے والابندہ قائل ہو جاۓ۔ میں نے اپنے خیالات کو مختصر کرتے ہوۓ اپنی ناقص عقل کے مطابق ایک چھوٹا سا میسج لکھا اور سینڈ کر دیا۔

لوگ کیا کہیں گے؟

“اگر یہ بھی ہم ہی سوچیں گے تو پھر لوگ کیا سوچیں گے؟ لوگ ہوتے کون ہیں ہمارے نجی معاملات میں دخل دینے والے؟ یہ تو ہے ایک پہلو جسکو منطق کی دنیا میں اتنا مضبوط نہیں مانا جاتا۔ دیکھیں کسی بھی چیز کو کرنے کے دو پہلو ہوتے ہیں ہر پہلو میں طریقہ الگ ہوتا ہے، نظریہ الگ ہوتا ہے، زاویہ مختلف ہوتا ہے۔ منحصر کرتا ہے کہ ہم کر کیا رہے ہیں؟ مثال کے طور پر ایک پہلو ہےمیری نجی زندگی سے متعلق جس میں صرف میں ہوں؛ میں کیا کرتی ہوں؟ کب کرتی ہوں؟ کیوں کرتی ہوں؟ یہ تمام میرے مسائل ہیں کسی اور کو فکرمند ہو کر سوچنے کے ضرورت نہیں اور نا ہی اس سب کے لیے میں جواب دہ ہوں کیونکہ میں جو بھی ہوں وہ میرا اور میری ذات کا مسلۂ ہے۔

جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ میں کچھ ایسا کر رہی ہوں جسکے ساتھ اور بہت سارے لوگ جڑے ہوۓ ہیں۔ میں جو کر رہی ہوں بالواسطہ اور بلاواسطہ اسکا کوئ تعلق ان لوگوں سے ہے تو پھر میں عمومی نظریات کو ذہن میں رکھتے ہوۓ کوئ بھی فیصلہ لوں گی۔ کیونکہ اب میرا فیصلہ اجتماعی طور پر اثرانداز ہونے جا رہا ہے۔ مجھے میری مرضی کو چھوڑنا ہوگا اور یہ سوچنا ہو گا کہ جس سماج کا میں حصہ ہوں وہاں پر کیا چیز قابل قبول ہے۔ یاد رہے وہ چیز جس کا دوسروں پر کوئ منفی اثر نہ ہو”

اس لیے اپنی زندگی کو دوسوں کے ہاتھ کا ریموٹ کنٹرول نہ بننے دیں، آپ جو ہیں جیسے ہیں جو کر رہے ہیں اگر آپ مطمعٔن ہیں اور آپ کو یقین ہے آپکے افعال کا کوئ منفی پہلو نہیں جو دوسروں کو متاثر کرے تو پھر یہ پرواہ کرنا چھوڑ دیں کہ کوئ کیا کہے گا کیا سوچے گا۔ سماج اور رسومات کے جنجال میں پھنسے رہنے سے ہم نے بہت کچھ نا حق قبول کیا۔ مثال کے طور پر:

اپنے سے بڑوں کا احترام کرنا ہمارا مزہبی فریضہ بھی ہے۔ لیکن انکی ہر بات پر سر تسلکم خم کرنا، سوال کرنے کی جرأت نہ کرنا اور ہاں میں ہاں ملاتے رہنا،اپنے اندر کے تخلیقی انسان کو مار دینا تو شائد کسی بھی سماج کا اصول نہ ہو گا۔ مگر جو چیز غلط ہو اور زیر تجربہ ہو اسے غلط العام کہتے ہیں۔

ہمیں کبھی بھی فییصلے خود لینے کی طرف متوجہ کیا ہی نہیں گیا، ارے آج تک ماں باپ انجینئر و ڈاکٹر کے کمپلیکس سے باہر نہیں نکل سکے، سائنس و آرٹس کی بحث میں الجھے ہوۓ ہیں، نمبروں کی دوڑ میں بھاگ رہے ہیں۔ ایسے میں کوئ تخلیقی دماغ کیونکر پروان چڑھے گا جس نے نمبروں کے چکر میں بارہ سال رٹہ لگاتے ہوۓ گزار دیے، شادی بیاہ کے فیصلے لینے کی تو بات ہی چھوڑ دو۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر میں پھر کبھی اپنے خیالات لکھوں گی۔ پاکستان میں تو بچے کے ماں باپ بعض اوقات مرضی سے اسکا نام تک نہیں رکھ سکتے، عید کے کپڑے، میچنگ جیولری تک پر دوسرے سوال اٹھاتے ہیں۔ آپ کس کس کی خوشی کا احترام کرتے ہوۓ اپنی خواہش کا گلہ گھونٹیں گے؟اپنی راۓ کا قتل کریں گے؟

لہذا اپنے فیصلے خود لیجیے کسی کو اپنی زندگی پر حکمرانی کی اجازت مت دیجیے۔ راہنمائ اور بے جا حکمرانی میں فرق سمجھیں۔ آپکا جسم،دل و دماغ اللہ کی امانت ہیں انکا بہتر استعمال کیجیے اور ان نعمتوں کو ہلکے میں مت لیجیے۔ جب تک آپ خود اپنی ذات کی قدر نہیں کریں گےکوئ دوسرا بھی آپکو اہمیت نہیں دے گا۔ آپ جو ہیں جیسے ہیں یہ آپ سے بہتر آپکو کوئ نہیں جانتا۔ سلامت رہیں

طالب دعا:رمشہ شہزادی

11 thoughts on “لوگ کیا کہیں گے؟

  1. Logo ka kaam hay Bolna yehi batein age barhne s rokte b Hein or barne ka sabab b bante hein depend karta hay k ap n kis tarha lea hay.Well done writer 👌

  2. Zindagi humari to soch aur sawal bhi humare… “Log kia kahein ge” is jumle ko sun kar ansuna karna zaruri hai

  3. کچھ تو لوگ کہیں گے
    لوگوں کا کام ہے کہنا
    چھوڈو بے کار کی باتوں میں
    کہیں بیت نہ جاۓ رہنا

  4. کچھ تو لوگ کہیں گے

    لوگوں کا کام ہے کہنا

    چھوڈو بے کار کی باتوں میں

    کہیں بیت نہ جاۓ رہنا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *