روٹی ایک مسلۂ

News101 > Uncategorized > روٹی ایک مسلۂ
روٹی ایک مسلۂ

روٹی ایک مسلۂ

ازقلم: رمشہ شہزادی

شہزادی ام رمان بنت شیخ صدیس یوم مزدور کانفرس اٹینڈ کر کہ واپس أرہی تھیں شہر سے واپسی پر ایک خاص علاقے میں سے گزرتے ہوۓ کچھ لوگوں کی محنت اور کام کرنے کے انداز نے انھیں بہت متاثر کیا گویا کہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ ان لوگوں کو مزید جاننے کے لیے متجسس ہو گئیں۔
ڈرائیور کو ہدایت کی کہ گاڑی اس بستی میں لے جاؤ ڈرائیور نے چونک کر دیکھا پھر جی میڈم کیہ کر حکم بجا لاتے ہوۓ اسٹیرنگ گمایا۔ شہزادی کی حفاظت کے لیے بہترین تربیت یافتہ فولادی جسم اور صلاحیتوں کے مالک پاکستاں کے نمبر ون أرمی گروپ ایس ایس جی کمانڈوز کے نوجوان شہزادی کہ ہمراہ ہر جگہ اس کہ ساتھ ہوتے تھے۔
وہ غربت میں پسا ہوا طبقہ شائد کسی دوست ملک کے معاشی حالات قابل ترس ہیں شہزادی کو صرف یہ ہی سمجھا پایا ۔
ایک کہ بعد ایک منظر شہزادی کو چنکا دینے کے لیے تیار تھا۔ سخت گرمی جہاں پر درجہ حرارت 52 ڈگری سے بھی تجاوز کر چکا تھا۔ وہاں لوگ اس مثال پر بالکل صادق أرہے تھے کہ روٹی ہی مسائل میں سے ازخود ایک مسئلہ ہے۔ پسینے سے شرابور میلے کچیلے کپڑے بدن کہ ساتھ یوں چپکے ہوۓ تھے جیسے کہ کسی نے کوئ ایلفی لگا دی ہو۔ بظاہر سیفٹی کے لیے کچھ چیزیں پہننے کے لیے ان مزدوروں کو دے دی گئ تھیں مگر خدا گواہ ہے وہ انکی سیفٹی کے لیے کافی نہ تھیں۔
دنیا بھر میں یوم مزدور منایا جا رہا تھا مگر بادشاہت کے اس ملک میں کچھ لوگ أج بھی مزدوروں سے کام کروا رہے تھے۔ تحقیقات کرنے پر پتہ چلا کہ یہ مزدور مختلف ممالک سے روزی روٹی کمانے کی غرض سے أۓ ہیں أج مزدوروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اسکے باوجود بھی یہ لوگ کام کرنے پر أمادہ ہو گئے ہیں کیونکہ اوور ٹائم لگانے پر أج انھیں ڈبل پیسے ملیں گے۔
تعلیمی میدان میں امریکہ سے فارغ التحصیل شہزادی کو لگا کہ انسانی حقوق کی پامالی سب سے زیادہ اسی کے ملک میں ہو رہی ہے۔ جو لوگ ان مزدوروں سے کام کروا رہے تھے انکی خوب خبر لینے کے لیے اس نے اپنے خاص بندے کو حکم دیا اور خود مزدوروں کی اس بیڑ میں داخل ہو گئ جہاں وہ لوگ لنچ بریک میں کھانا کھانے اور اپنے اپنے گھروں میں ہیلو ہاۓ کرنے میں مصروف تھے۔ ان میں سے ایک کی گفتگو شہزادی نے نا صرف سنی بلکہ محسوس کی ہاتھ میں بیلچا پکڑے، ماتھے پر رومال لپیٹے ہوۓ، تنگ پجامہ اور اونچی سی شرٹ پہنے ہوۓ وہ دیوار ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑا تھا اور ایک کہ بعد ایک شیخی مار رہا تھا کہ وہ بہت موج میں ہے، یہاں سب اسکی بہت عزت کرتے ہیں وہ روز نیۓ سے نیۓ اور لزیز کھانے کھاتا ہے ۔ أپ بالکل بھی فکر مت کریں میں جلد ہی أپ کے لیے عمرے کا ٹکٹ بھیجوں گا أپ بس اپنا اور ابا کی صحت کا خیال رکھیں۔ وہ شائد اکلوتا تھا اسی لیے اپنی ماں کے سامنے شیخیاں مار رہا تھا۔ فون بند کرتے ہی أنکھوں میں ٹھرے أنسو رخساروں پر بہنے لگے۔
شہزادی نے ان مزدوروں کو اس تنخواہ سے چگنا دیا جس کا وعدہ انکے مالک نے ان سے کیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنےہی دن پر کی جانے والی سرکاری چھٹی کو چھوڑ کر کام پر أگۓ تھے۔ مایوس أنکھوں میں اچا نک سے أنے والی چمک اور ہونٹوں پے أنے والی مسکان کو شہزادی نے أج پہلی بار محسوس کیا تھا۔
شہزادی کی حفاظت کے لیے تعینات پاکستانی ایس ایس جی کمانڈو نوجوان أفیسر جو اپنے ہی ملک میں بہت سارے أعلی عہددران کی پرسنل سیکیورٹی کی خدمات سر انجام دے چکا تھا بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا۔
گزشتہ سال جب امریکہ سے کسی ویلفئر أرگنائزیشن نے پاکستان کے ساتھ مل کر انسانی حقوق پر کام کرنا چاہا تھا تو وفاق نے ایک بڑی رقم مختص کردی۔ مختص کی گئ رقم کہاں خرچ ہوئ یہ کہیں پر بہی نظر نہ أیا۔ دو وقت کی روٹی کمانے والوں کو اگر یہ افسر شاہی غلطی سے ملنے چلی بھی جاۓ تو اپنی پروفائل انہینس کرنے کے چکر میں اس غریب کی غربت کا مزاق ہر اینگل سے تصویریں اور ویڈیو بنا بنا کر اڑاتے ہیں۔ جو مزدور بیچارے دال کے ساتھ ایک عدد روٹی کے لیے سارا دن اپنی تین سو پینسٹھ ہڈیوں کو توڑتا و مڑوڑتا ہے اسی کو سننے کو ملتا ہے کہ ملک نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے۔
جبکہ ملک کو چلانے والوں کو رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ أج بھی سرکاری سطح پر چھٹی منا کر لوگ سو رہے ہیں مگر اصل میں مزدور کام کر رہا ہے۔ جسے کبھی مکمل انسان ہونے کے کہ حقوق کا اندازہ بھی نہیں ہو گا۔ روٹی ضروری ہے اسکے لیے مزدوری مجبوری ہے۔ پھر اگر میسر أ جاۓ تو ضروری سمجھ کر مجبوری کہ تحت کمائ گئ یہ ہی روٹی دیسی گھی کی چوری ہے۔
ہمیشہ سے سنتی أئ ہوں کہ أدمی وہی کامیاب ہے جو اپنی محنت کے بلبوتے پر کچھ حاصل حلال اور جائز طریقے سے کرتا ہے ۔ میں أج کے دن کسی حکومتی ادارے یا تنظیم کو کچھ نہیں کہوں گی کیونکہ باتیں کرنے اور أئین میں موجود قوانین کی یاد دہانی کروانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ میرے لیے میرے اصل ہیرو اور معتبر لوگ یہی ہیں جو سادہ سے معثوم سے بھولے بھالے ہیں جنکو صرف اپنی ذات اور اس سے منسلک محدود ذمداریاں اور ضروریات پورری کرنے سے غرض ہے۔ جو کس کا حق نہیں کھاتے، کسی پر نا حق ظلم نہیں ڈھاتے ، کسی کو الزام نہیں دیتے اور نا ہی سر بازار کسی کی خودی کو رسوا کرتے ہیں۔ یہی لوگ زندہ باد ہیں ہہی شاد بادو کامران ہیں ۔۔ یہ میرا دل میرے مزدور ہیں۔

2 thoughts on “روٹی ایک مسلۂ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *