قبولیت و مقبولیت

News101 > Uncategorized > قبولیت و مقبولیت

قبولیت و مقبولیت

جب ہم اسلامیات کی کتاب پڑھیں تو وہاں ہمیں عموماً مختلف الفاظ کے دو قسمی معنی بتائے جاتے ہیں۔ ایک قسم لفظی يا لغوی معنی کی ہوتی ہے جب کہ دوسری قسم اصطلاحی معنی کی ہوتی ہے۔

ٹھیک اِسی طرح عام زبان میں استعمال ہونے والے دو الفاظ قبولیت اور مقبولیت بھی دو قسمی معنی رکھتے ہیں۔ ایک قسم کا معنی جو کہ ہم کسی بھی عام موقع پے بول دیتے ہیں جبکہ دوسری قسم کا معنی آجکل ذرا سیاسی رُوپ دھار چُکا ہے۔ اور بالترتیب عوامی حلقوں اور مقتدر حلقوں سے تعلق رکھتا ہے۔

امید ہے آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ یوں تو سادہ دکھنے والے یہ الفاظ ایک حرف میم کے اضافہ یا کمی سے کتنا بڑا عملی فرق ڈال دیتے ہیں۔ یعنی کہ یہی ایک حرف میم ہی کسی کے اقتدار کا تعین کرتا ہے یا کسی کو اقتدار کے حلقوں سے بے دخل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اصل میں یہ حرف میم مقتدر حلقوں نے لگانا یا ہٹانا ہوتا ہے۔

موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو عمران خان کے پاس مقبولیت تو ہے مگر میم کی کمی کے ساتھ والی قبولیت نہیں ہے۔ جتنے بھی سروے دیکھے ہیں اُن میں تحریک انصاف کے پاس 65 سے 70 یا 80 فیصد تک مقبولیت ہے۔ اگر ان سرویز کے نتائج بندہ قبول نا بھی کرے اور ان کے نتائج میں سیدھا سیدھا 20 سے 30 فیصد کٹ بھی لگا دے اکیلی تحریک انصاف کے پاس مجموعی طور پر پھر بھی 50 فیصد مقبولیت بچ جاتی ہے جو کہ انتخابات میں سادہ اکثریت لینے کےلئے کافی ہے۔ جب کہ دیگر جماعتوں کو بھی پچاس فیصد دے دیا جاۓ تو وہ کیوں کہ اس وقت قبولیت کا درجہ رکھتی ہیں لہٰذا اسی وجہ سے اُنکی مخلوط حکومت ایک دفعہ پھر بھی بن سکتی ہے۔

مگر یہ سارا مفروضے کی بنیاد پر کیا گیا تجزیہ ہے جس سے میں خود اتفاق نہیں کرتا۔ کیوں کہ جنہوں نے قبولیت کا درجہ دلوانا ہے وہ پھر دوسری جماعت کی مقبولیت بھی ختم کروا سکتےہیں۔ اور اِسی مشن پر کام جاری بھی ہے۔ مقبولیت کا پہاڑ ریزہ ریزہ کرنے کیلئے کبھی توشا خانہ کا کیس لایا جاتا ہے تو کبھی سائفر کی بنیاد پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے۔ کبھی 9 مئی جیسے واقعات کی صورت میں پارٹی کا کباڑا نکلا جاتا ہے۔

پھر جو جو پارٹی کو خیر باد کہتا تو وہ دودھ کا دھلا بن جاتا ہے اور تمام مقدمات میں اسے با عزت بری كر دیا جاتا ہے یعنی کہ ایک دم سے نظام اِنصاف اُسی پے مہربان ہو جاتا ہے۔ جو عمران خان کے ساتھ وفا داری کا عہد وفا کرتا ہے تو اسے بغیر کسی تقسیم یعنی پنجابی،پشتون یا سندھی کے ایک سا انجام دیکھنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی مثال دیکھ لیں یا پھر حماد اظہر کی۔ مراد سعید کی مثال دیکھ لیں یا پھر شہریار آفریدی کی۔ سب کے ساتھ ایک سا سلوک رَوا رکھا جا رہا ہے۔

جب کہ اگر دوسری طرف کی مثالیں دیکھی جائیں تو مقبولیت کے بغیر قبولیت کی تو بے پنہاں مثالیں مل جائیں گی۔ جو کہ تاریخی پس منظر میں بھی موجود ہیں اور موجودہ حالات میں بھی ہیں۔ تاریخی طور پے دیکھا جائے تو پاکستان کے سب سے پہلے عام انتخابات 1970 میں ہوئے۔

تو مقبولیت عوامی لیگ کے لیڈر مجیب الرحمٰن کے پاس تھی جس نے 313 میں 167 سیٹِس جیتی جبکہ دوسری طرف ذوالقار علی بھٹو تھا جس نے 313میں سے 86 سیٹِس جیتی تھی۔ یوں جمہوری انتخابی نظام کے تحت مجیب الرحمٰن نے اکثریت کا ووٹ لے لیا تھا اورقانونی طور پر پاکستان کا وزیرِاعظم بن سکتا تھا۔مگر مقبولیت کے اس واضع فرق کے باوجود بھی مجیب الرحمٰن کو قبولیت کا درجہ نا مل سکا اور مقتدرہ نے کیوں کہ بھٹو کے ساتھ کٹھ جوڑ کر رکھا تھا اور اُنہیں ہی وزرات عظمیٰ کے رتبہ پر فائز دیکھنا چاہتے تھے تو اس کی پرواہ کیے بغیر کہ ملک ٹوٹ جائے گا اُنہوں نے عوامی تائید اور فیصلہ کو نہ مانتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا۔ نتیجہ سقوط ڈھاکہ نکلا مگر اُنہیں عوامی رائے کا احترام بالکل بھی نہیں کرنا تھا۔

قبولیت کی اگلی مثال بھی فنون لطیفہ کی دنیا کا بہت بڑا لطیفہ ہے۔ 1993 میں نگراں وزیراعظم کیلئے مملکتِ خداداد سے کوئی بندہ میسر نہیں تھا۔ پھر مقتدرہ کو خیال آیا کہ امریکا میں بیٹھے ایک ایسے بندے کو نگراں وزیراعظم بنا دیں جس کے پاس وزیرِ اعظم بننے سے پہلے اُسی مملکتِ خداداد کا شناختی کارڈ ہی نہیں تھا جس کے عنان حکومت اس نے سنبھالنے تھے یعنی کہ معین قریشی۔ قبولیت کا یہ درجہ رہتی دنیا تک بہت بڑا لطیفہ رہے گا۔

دیگر مثالوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سیدھا موجودہ مجموعہ سیاست کاراں کی بات کرتے ہیں۔ جن کےکسی فیصلہ کو عوامی تائید حاصل ہے نہ ہی مقبولیت ہے۔ مگر پھر بھی عنان حکومت سنبھالے ہوئے ایک کامل سال سے تین ماہ اوپر بھی ہی گئے ہیں۔ملک میں افراتفری کا سما ہے۔ دہشت گردی عروج پے جا رہی ہے اور جوان ہیں کہ غیر ملک جانے کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔

ملک میں قانون کی کتاب روند دی گئی ہے اور مقتدرہ مقبول لیڈر کو ٹھیکانے لگانے کا فیصلہ کر چُکی ہے اور تبھی انتخابات میں جانے کا سوچ رہی ہے۔ اگر مقررہ حدف متعین وقت میں حاصل نہیں ہوتا تو آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے نگراں حکومت کو طول بھی دیا جائے گا۔ مگر یاد رکھیں عوامی تائید کے بغیر شاید کٹھ پتلیوں کی حکومت تو وجود میں آ جائے مگر ملک چلانے کی سکت اس میں نہیں ہو گی اور وہ چوں چوں کا مربہ ڈیڑھ سال یا دو سال تک چل پائے گا اور پھر عوامی فیصلہ کے سامنے شاید حکومت کا ٹکنا محال ہو جائے گا اور مُلک ایک دفعہ پھر سیاسی و معاشی انتشار کا شکار ہو گا۔

5 thoughts on “قبولیت و مقبولیت

  1. یہ ملک جب تک قبولیت اپناتا رہے گا تب تک انتشار کا شکار رہے گا۔

  2. ماشاءاللہ ۔آپ نے درست فرمایا۔اللہ پاک آپکو مزید لکھنے کی ہمت دے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *